بچوں کے ساتھ نرم لہجہ اختیار کیجئے

 

بچوں کے ساتھ نرم لہجہ اختیار کیجئے

گھر کی فضا کو خوشگوار رکھنے کے لئے آپس میں پیار ومحبت اور اعتماد بہت ضروری ہے مگر موجودہ نفسا نفسی کے دور میں اکثر والدین کا رویہ اپنے بچوں کے ساتھ غیر دوستانہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے لڑکپن کی حدود میں داخل ہونے والے بچے خواہ لڑکا ہو یا لڑکی جذباتی مسائل سے دوچار ہو جاتے ہیں اور لڑکیاں بڑھتی عمر کے مسائل کے ساتھ اور لڑکے سکول کے بڑے لڑکوں کی دھونس دھمکیوں کا شکار ہو کر جذباتی مسائل کا شکار ہونے لگتے ہیں وہ دوسروں سے ملئے جلنے سے کترانے لگتے ہیں۔ 
تنہائی پسندی ان کی شخصیت کا حصہ بنے لگتی ہے اور یوں ان کی تعلیمی سرگرمیاں اور پڑھائی متاثر ہونا شروع ہو جاتی ہے اور اگر یہ عادت مستقل بن جائے تو ان کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان بن کر رہ جاتا ہے۔ 
ماہرین نفسیات کا خیال بھی یہی ہے کہ اگر والدین اولاد یا ایک ہی گھر کے اندر رہنے والوں کے درمیان ابلاغ موثر نہ ہو تو اس سے لڑکپن کی حدود میں داخل ہونے والے بچوں کی شخصیت پرمنفی اثرات مرتب ہونے لگتے ہیں۔ اس لئے والدین کو چا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اپنے بچوں کے ساتھ مشفقانہ روئیے کے علاوہ ان کے ساتھ دوستی کا رشتہ قائم کریں تاکہ وہ آپ کے ساتھ اپنے مسائل، دن بھر کی سرگرمیاں اور اپنے تعلیمی معاملات کو ڈسکس کر سکیں کچھ ایسے والدین بھی ہوتے ہیں جو بچوں کو کھلاؤ سونے کا نوالہ دیکھو شیر کی نگاہ سے کی کہاوت میں عملی رنگ بھرتے نظر آتے ہیں۔ 
پہ سچ ہے کہ والدین کو اپنی عمر اور تجربے کی بنیاد پر حالات کو بہتر سمجھنے کا فن حاصل ہوتا ہے اور وہ اپنے بچوں کو روک ٹوک یا ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں مگر بہت سے والدین یہ روک ٹوک اور سمجھانے کا عمل کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ بچے اسے جبر اور زبردستی سمجھنے لگتے ہیں اور جس کے نتیجے میں وہ باغی یا پھر تنہائی پسند ہو جاتے ہیں اور یہ دونوں ہی باتیں ان کے مستقبل کے لئے خطرناک ہوسکتی ہیں۔
 ٹھیک ہے والدین کو اللہ رب العزت نے بہت بڑا رتبہ دیا ہے۔ انہیں اپنی اولاد کو دنیا میں لانے کا سبب بنایا ہے ان کی خدمت کو جنت کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ 
مگر ان سب باتوں کے باوجود والدین کو اپنی اولاد کے ساتھ پیار و محبت اور نرم رویہ کا برتاؤ کرنا چاہیے اور انہیں روک ٹوک کرتا، روزمرہ معمولات کا پابند بنانا اور سماجی تعلیم دینے کے لئے بہتر سے بہتر طریقہ اپنانا ہوگا۔ 
یوں بچے اپنے والدین کے احکامات کو بہتر طریقے سے قبول کریں گے اور وہ یہ جان لیں گے کہ یہ سختی اور پابندی حکم نہیں بلکہ ان کی بہتری کے لئے ہے۔ ان کے روشن مستقبل کے لئے ہے تو والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو وقت دیں۔ 
ان سے دن بھر کی مصروفیت تعلیم ، کھیل کود کے حوالے سے بات چیت کریں۔ اس طرح ماں باپ کو بچے کی دماغی صلاحیتوں اور ان کی جذباتی الجھنوں کو سمجھنے میں مدد ملے گی اور یوں وہ اپنے والدین سے اپنے ایسے مسائل بھی شیئر کرنے لگیں گے جو ان کے ذہنی دباؤ کا سبب بن چکے ہوں ۔ 
اسی طرح ایک لڑکی جب لڑکپن کی حدود میں داخل ہوتی ہے تو جسمانی تبدیلیوں کے رونما ہونے کی عمر کے اس حصے میں اسے بھی کسی قریبی ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے جس سے وہ اپنے مسائل بیان کر کے ان کا حل پوچھ سکے۔ ایسی صورت میں ماں سب سے بہتر مددگار ہوتی ہے اس لئے اگر تمام مائیں اپنی بیٹیوں کے مسائل سمجھنے لگیں تو بیٹیاں بھی مسائل کے بھنور میں نہ الجھیں۔ کیونکہ بڑھتی عمر کے مسائل ذہنی طور پر بچیوں کو دباؤ کا شکار بنا دیتے ہیں۔ 
اسی طرح لڑکے اگر لڑکپن کی عمر میں والدین کے رویے سے متنفر ہوں تو وہ چند باتی ہیجان میں مبتلا ہو کر غلط صحبت اختیار کر لیتے ہیں جس سے ان کا مستقبل بھی داؤ پر لگ جاتا ہے۔ 
اس لئے سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ کم عمری سے ہی بچوں کے اندر یہ احساس پیدا کر دیں کہ وہ آپ پر اعتماد کے ساتھ ہر بات چیت کر سکیں۔ 
اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات کو بیان کر کے ان کے جوابات جان سکیں اور یہ سوچ کر آپ سے رہنمائی حاصل کریں کہ آپ ہی ان کے سب سے اچھے اور مخلص دوست ہیں جو مشورہ دیں گے وہ درست ہوگا۔ تمام والدین کو یہ بات کبھی نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ نو عمری اور لڑکپن کا زمانہ بچے کی زندگی کا ایک اہم ترین دور ہوتا ہے اور اگر اس دوران والدین کا بچے سے روپیہ دوستانہ ہو تو اس کی زندگی اور مستقبل سنور سکتا ہے لیکن اگر بات اس کے بر عکس ہو تو پھر بچے کی زندگی سوالیہ نشان بھی بن سکتی ہے اور اگر ایسے بچے اپنی زندگیوں میں کامیابیاں حاصل کر بھی لیں تو ان کے ذہنوں میں ہمیشہ اپنے والدین کا سخت رویہ نقش بن کر رہ جاتا ہے اور جب والدین کے پاس بہت سا وقت ہوتا ہے تو بچے ان کو Avoid کرنے لگتے ہیں اس لئے سب والدین کو اپنے بچوں کے ساتھ بہت خوشگوار وقت گزارنا چاہئے تا کہ یہ وقت آنے والے وقتوں میں قیمتی سرمایہ بن جائے اور بچوں کو بھی اپنے ماں باپ کاخاص خیال رکھنا چاہیے۔



Comments